Thursday, August 28, 2014

چڑیا سے باز کا شکار



اے حقیقتِ منتظِر:  
از : خُرم اقبال اعوان
چڑیا سے باز کا شکار
اللہ کا لاکھ لاکھ شکرکہ آزادی و انقلاب مارچ خیرو آفیت سے اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہا اور اپنے پڑاؤ کے مقام پرنہ صرف پہنچا بلکہ ایک نئ منزل کا تعین کرتے ہوے پارلیمنٹ ہاوس کے باہر جا پہنچا۔ اب کچھ جائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ہوا کیا تھا، نوبت یہاں تک کیوں آئی اور ہونا کیا چاہیے تھا؟ آگے کیا ہونے کے امکانات ہیں ؟ اور کیا ہونا چاہئے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ابھی تک حزبِ اقتدار اورحزبِ اختلاف والوں کی سیاسی نا فہمیاں کہاں کہاں تھیں اور اُن سے کیا اثرات مرتب ہوے۔
حزب اقتدار سے شروعات کرتے ہیں کہ انہوں نے اس ایشو کو کبھی قابل توجہ ہی نہ سمجھا اور عمران خان اور طاہر القادری کی ہر بات کو باقاعدہ مذاق میں اڑا دیا گیا۔ اور جب طاہر القادری صاحب نے پاکستان آنے کا صرف اعلان کیا اور جیسا رد عمل قادری صاحب  کے آنے کا اعلان سن کر حکومت کی جانب سے کیا گیا اُس کا نتیجہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی شکل میں سامنے آیا۔ اِس کے بعد جب قادری صاحب اسلام آباد آنے لگے تو حکومت نے اِسے بھی اپنے لئے خطرہ جانا، اور ان کے طیارے کا رخ لاہور کی جانب موڑ دیا گیا جو کہ ایک عام پاکستانی شہری اور مسافر کے حقوق کی سراسر خلاف ورزی تھی، اور پھر گورنر عشرت العباد میدان میں سامنے آئے اور انہوں نے گورنر پنجاب کو ساتھ ملایا اور قادری صاحب کو منا کر ماڈل ٹاؤن کی جانب روانہ کر دیا گیا۔
 کیونکہ حکومت نے ایک کمزوری کا اظہار کر دیا کہ وہ اسلام آباد میں آنے کے نام سے ہی خوفزدہ ہو جاتی ہے، اور پھر قادری صاحب کے طیارہ کو موڑ کر اِسے اور تقویت دی گئ۔ پھر بھی حکومت کی کیا کہیں کہ ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگی بلکہ اس میں کئے گئے بلند و بانگ دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے وزیر اعلٰی صاحب نے کہا کہ اگر حکومت کو قصور وار ٹھہرایا گیا تو میں اسی وقت استعفی دے دوں گا مگر ہوا کچھ برعکس۔ اسی طرح میاں محمد نواز شریف صاحب سے اس دور اقتدار میں وعدہ خلافی  کی بہت سی شکایات ہیں جیسے مشرف کا معاملہ ہوا ، کیانی صاحب کا معاملہ جس میں انہیں جوائنٹ چیف آف آرمی سٹاف بنانا تھا اور ان کے کردار کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے زیادہ اہم بنانا تھا۔
شمالی وزیرستان میں آپریشن کی راہ میں مذاکرات جیسی رکاوٹ ڈالنا یہ سب باتیں وہ تھیں جو وعدہ خلافی کے زمرے میں آتی ہیں۔ ہمیں اپنے ملک میں جس بات کا خیال رکھنا ہے اور وہ ہیں ہماری روایات جو کہ ہماری پہچان ہیں۔ جن میں زبان کا پاس رکھنا بھی ایک اہم امر ہے مگر ان سب باتوں کو پس پشت ڈالا گیا جو کہ میاں نواز شریف کا کبھی خاصہ نہیںتھیں مگر شاید جلاوطنی نے ان میں یہ ایک سیاسی  تبدیلی پیدا کی ہے جو کہ منفی ہے۔
اسی طرح اقتدار میں آکر اپنے ہی لوگوں اور اپنی ہی پارٹی پر اعتماد کا نہ ہونا، اختیارات کو اپنے اور اپنے خاندان سے باہر نہ جانے دینا۔ میرا یہ خیال تھا کہ جلاوطنی ان کو سیاسی طور پر بالغ کر دے گی مگر ان کے اطوار نے بتا دیا کہ وہ 80 اور 90 کی دہائی سے ہی باہر نہیں آئے۔ جہاں سیاسی مخالفوں کو ڈرا دھمکا کر، پیسے کا لالچ دے کر منا لیا جاتا تھا اور جو نہیں مانتا تھا وہ جان سے جاتا تھا۔
اس تمام تناظر میں مجھے سابق صدر آصف علی زرداری بار بار یاد آرہے ہیں جنہوں نے سیاست کو اپنے حساب سے ایک نیا رخ دیا اور اس کو مفاہمتی سیاست کا نام دیا۔ زرداری صاحب نے یہ روایت ڈالی کہ اس سے پہلے کہ خطرہ آپ کی طرف آئے وہ خود خطرے سے مل لیتے تھےاور اسے تحلیل کر دیتے تھے۔ چاہے بلوچستان کی جانب سے آواز اٹھے یا پنجاب سے آواز اٹھے،  زرداری صاحب  ہمہ وقت بات کرنے اور وہاں پہنچنے کے لئے تیار رہتے تھے۔ طاہر القادری صاحب  نے جب ان کے خلاف مارچ کیا تو رحمان ملک نے اس مارچ سے نمٹنے کے لئے سرکوبی کی سیاست کا انتخاب کیا مگر زرداری صاحب نے تحمل اوربرداشت کا مظاہرہ کیااور آنے والوں کے لئے راستہ کشادہ کرتے گئے۔ جس سے وہ مارچ آسانی سے تحلیل ہو گیا پھر زرداری صاحب نے بلا خوف و خطر مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے صدر کے اختیارات واپس کر دئے اور مفاہمتی سیاست کے ذریعے سب کو کار سرکار میں شامل رکھا۔ اختیارات کے بٹنے سے وہ میاں صاحب کی طرح پریشان نہیں ہوئے اور اعتماد کی فضا کو تقویت دینے کی کوشش کی۔
ایک اور چیز جس میں نواز شریف صاحب کو قحط کا سامنا ہے وہ ہیں ان کے مشیر، نواز شریف صاحب کے لئے اپنا ہی خاندان سب کچھ ہے اور ان کو اپنی پارٹی کے باقی لوگوں پر اعتماد نہیں انہوں نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا ہے کہ ان کے لئے ایک عام ممبر قومی اسمبلی کی وہی حیثیت ہے جو زیادہ تر ممبر قومی اسمبلی کی نظر میں ووٹر کی حیثیت ہے ۔ یعنی اسے بھی صرف اسمبلی میں وزیراعظم اور وزیر اعلٰی کو منتخب کرنے کے لئے رکھا گیا ہے ۔
ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو کس طرح ساتھ لے کر چلنا ہے اس میں بھی ن لیگ ناکام رہی۔ انہوں نے جو چال چلی کہ ایک میڈیا ہاؤس پر فوکس کریں اسے ساتھ لے کر چلیں اور وہ ایک لیڈنگ میڈیا ہاؤس بھی ہو تاکہ باقی سب اس کے پیچھے چلیں مگر افسوس کہ جو ہوا وہ بھی سب نے دیکھا۔ اس بات کا اعتراف اور بر ملا اعتراف ن لیگ کے ایک پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے وزیر نے اسلام آباد میں ملاقات میں افسوس کرتے ہوئے کہا کہ "ہماری میڈیا ہینڈلنگ فیل ہو گئی ہے" ۔ ان وزیر صاحب کا نام نہیں بتاؤں گا کیونکہ ان کا وژن بہت ہے اور وہ بہت قریبی بھی ہیں نواز شریف صاحب ۔ جبکہ اگر آپ پیپلز پارٹی کا دور دیکھیں تو ہر چینل نے قسم کھا رکھی تھی کہ ان کو ، شرمندہ اور معافی کے ساتھ ایک لفظ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ ذلیل کرنا ہے، مگر مجال ہے کہ پیپلز پارٹی کے لوگ اپنی پارٹی اور اس کی پالیسی کے دفاع کے لئے نہ آئیں وہ ہر وقت ہر جگہ دستیاب ہوتے تھے ان کے مقابلے میں ن لیگ والے کافی مرتبہ میڈیا سے دوری اختیار کر چکے ہیں۔ اورخلوت میں یہ باتیں کہہ چکے ہیں کہ اگر ہم پالیسی بنانے میں شامل نہیں تو اس کا دفاع کیوں کریں ۔ یہ وہ ایک سال کی چند بڑی بڑی غلطیاں ہیں جو کہ ن لیگ سے ہوئیں اور آج جو حالات ہیں وہ ان کی وجہ سے ہیں۔
اب چلتے ہیں عمران خان صاحب کی جانب تو ان کا تو میں 14 اگست والے مارچ سے شروع کرتا ہوں ۔ پہلے 14 اگست والے دن میں خود زمان پارک میں تھا ان کے دعوے کے بر خلاف لوگ ان کے ساتھ نہ ہونے کے برابر تھے مجھے تو سڑک پر(نہر کے ساتھ) چند خالی چند بھری ہوئیں بسیں نظر آئیں اور ان میں سب سے زیادہ میڈیا کی گاڑیاں تھیں۔ پھر کچھ لوگ اکٹھے ہوئے اور خان صاحب باہر نکلے یہاں ان کا گراؤنڈ ورک کمزور ہو گیا اور ان کی سب سے بڑی طاقت انصاف اسٹوڈنٹ فیڈریشن نے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کچھ کام نہ کیا یا اِن سے کچھ کام نہیں لیا گیا۔ دوسری غلطی اور کمی ان کی لیڈر شپ خصوصیات  میں نظر آئیں وہ یہ کہ جب گوجرانوالہ میں حملہ ہوا تو خان صاحب کا کنٹینرتو بلٹ پروف تھا  وہ تو چند اینٹوں اور روڑوں سے ڈر گئے اور کنٹینر سے اتر کر دوسری گاڑی میں جس قدر ہو سکتا تھا تیز بھاگ کھڑے ہوئے جو کہ ایک لیڈرکے شایان شان نہیں۔ اس کے بعد خان صاحب اسلام آباد میں تقریر کے لئے تشریف لائے ،اسلام آباد میں داخل ہونے پر اپنے آپ پر حملہ ہونے کا اعلان کیا اور بتایا کہ" یہ بات انہیں ایک حکومتی خط کے ذریعے بتائی گئی ہے کہ پنجابی طالبان آپ پر حملہ کر سکتے ہیں "۔ مزید کہا کہ میں شہادت سے ڈرتا نہیں ہوں اگر میرے مرنے سے مسئلہ ہوتا ہے تو مجھے مار لو مگر خان صاحب جب بھی آپ جلسے میں آئے بلٹ پروف جیکٹ زیب تن کر رکھی تھی جو کہ ایک کم عقل کو بھی نظر آرہی تھی۔ چوتھی غلطی عمران خان صاحب نے یہ کی کہ اس رات بنی گالا میں جا کر آرام کیا اوراپنے ورکرز کو بغیر لیڈر کے چھوڑدیا۔ نہ صرف خان صاحب بلکہ باقی تمام لیڈر شپ بھی سرینا اور شیرٹن میں ٹھہری ہوئی تھی۔ اور جن کا کوئی نہیں تھا وہ بیچارے جن میں مرد و خواتین دونوں شامل تھے جلسہ گاہ میں رسوا ہو رہے تھے۔  پانچویں غلطی سول نافرمانی کی تحریک کی کال تھی خان صاحب اور ان کے سوشل میڈیا کے ہاکس سے ادب سے عرض کرتا ہوں کہ جناب آپ نہ تو 10 لاکھ لوگ اکٹھے کر سکے اور نہ ہی آپ قادری صاحب کے دھرنے کی طرح منظم تھے جناب سول نا فرمانی کے لئے آپ کو دھرنا ختم کرنا پڑے گا اور گھر گھر جا کر مہم چلانا پڑے گی اور اس کام میں اگر کوئی سب سے زیادہ مؤثر ہے تو وہ جماعت اسلامی  جیسی جماعت ہے یا پھر قادری صاحب اور پیپلز پارٹی اور ن لیگ بھی کر سکتے ہیں مگر آپ کے لئے ممکن نہیں۔ آپ کی دھرنے کی کارکردگی سے اس سول نافرمانی والی کال نے خان صاحب کے لئے کافی مشکلات کھڑی کر دی تھیں۔ جس کے لئے انہوں نے پھر ایک سیاسی پینترا کھیلا اور وہ تھا استعفوں والا اور ریڈ زون کی جانب جانا یہ دونوں سیاسی کارڈز بالکل ٹھیک ہیں اور آئین کے مطابق ہیں۔  جو سیاسی ہلچل آئین کے مطابق ہو اسے کھلے ذہن اور دل کے ساتھ ہونے دیں یہ سیاست کی خوبصورتی ہے اور معاشرے میں اس سے سیاسی بالغ پن آئے گا۔
 حکومت نے ریڈ زون کی حفاظت فوج کے حوالے کر دی، جبکہ وزیراعظم فوج کے کمانڈر کو بلانے کی بجائے سیاسی لوگوں کو بلاتے اور اُن کو بھیجتے اور اس مسئلے کے سیاسی حل پر زور رکھتے تو زیادہ بہتر ہوتا کیونکہ آپ انقلاب مارچ اور آزادی مارچ والوں کو سیاست کرنے کی دہائی دے رہے ہیں مگر خود فوج کو بلا کر اپنی سوچ کا پتہ دے رہے ہیں ۔ فوج ایک سیاسی معاشرے میں آخری حربہ ہوتی ہے چاہے اسے اپوزیشن کال کرے یا حکومت ۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ ہار چکے ہیں باقی سب حربے ناکارہ ہو چکے ہیں۔ ساتھ ہی یاد دلانا چاہوں گا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت تو دلیل والوں کے ساتھ ہے نہ کے غلیل والوں کے ساتھ پھر غلیل والوں کو یاد کرنا کچھ عجب نہیں۔ 
اب ایک اور منظر نامہ دیکھتے ہیں اگر آزادی مارچ اور انقلاب مارچ دونوں کو آرام سے پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دینے کی جگہ دے دی جاتی ہے اور کوئی مزاحمت نہیں کی جاتی تو کیا ہوسکتا ہے؟ جناب اگر ایسا ہوتا ہے تو مجھے چشم تخیل سے یہ نظر آرہا ہے کہ تمام ملک میں بالخصوص تمام بڑے شہروں میں جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے دھرنے دے دئیے جائیں گے اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ اور صوبائی نظام زندگی بھی درہم برہم کیا جائے گا، جس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور مکاتبِ فکر بھی شامل ہو جائیں گے۔ تو نواز شریف صاحب کے پاس تین راستے ہیں یا تو بھاگ جائیں، یا لڑیں، یا وہ جہاں ہیں کھڑے کھڑے مرنے کے لئے تیار رہیں اب یہ حل کیوں ہیں؟ جناب آپ مشرف کا فیصلہ نہیں کر رہے اور اسی معاملے میں آپ فوج کا اعتماد کھو چکے ہیں ۔ فوج کی ایک بات بہت اچھی ہے کہ اگر آپ فوج کو یقین دلانے میں کامیاب ہو جائیں کہ آپ ان کے دوست ہیں تو وہ آپ کے ساتھ ہیں اور اگر انہیں یہ بات کھٹک جائے کہ آپ ان کے خلاف ہیں اور خطرہ ہیں تو وہ آپ کے دوست نہیں رہتے۔ یہ ایک خطرناک صورت حال ہوتی ہے میاں صاحب آپ نے وہی کیا، آپ نے ان کے سابق کمانڈر کو پکڑ کر رکھا ہوا ہے ۔ جناب آپ کو دلیری سے فیصلہ کرنا ہے اگر آپ اس حالت سے نکلنا چاہتے ہیں تو   دو کام نہایت تیزی سے کرنے چاہئے یا تو مشرف کو سزا دیں یا انہیں جانیں دیں۔ دوسرا جنرل ظہیر الاسلام کی مدت ملازمت میں یا تو توسیع کریں یا ان کو ہٹا دیں۔ اس کا ایک سادہ سا فارمولا ہے کہ وزیراعظم ایک سمری دیں کہ نئے ڈی جی آئی ایس آئی کے لئے نام دئے جائیں تاکہ وہ موجودہ ڈی جی کے ساتھ کچھ دن گزار کر معاملات کو بخوبی سمجھ سکیں۔ کیونکہ ملکی حالات اس وقت بہت ہی گھمبیر ہیں اور اگر میاں صاحب نے سیاسی بصیرت سے سوچا اور چوہدری نثار صاحب کی باتوں پر عمل کیا تو جنرل راحیل شریف کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں یہ بات طے ہو چکی ہو گی کہ دونوں لیڈروں کو باعزت واپسی کا راستہ دیا جائے گا۔ایک آخری بات جو کرنا چاہوں گا کہ ہر بڑے لیڈر کے ساتھ چند ایسے مشیر ہوتے ہیں جو اسے حالات کی سنگینی اور حقیقت حال سے آگاہ کرتے ہیں اور اس کے لئے راستہ نکالتے ہیں۔ اور ساتھ ہی پارٹیوں میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی ہر جگہ ایک عزت اور وقار ہوتا ہے۔ تاکہ اگر کبھی کوئی بحران آئے تو ان کو دوسروں کے پاس بھیجا جائے یہاں تک کہ مخالفین بھی کم از کم ان کی بات سنیں بدقسمتی سے پاکستان مسلم لیگ ن اس طرح کے دونوں لوگوں سے عاری ہے۔ اب اگر ایک چوہدری نثار صاحب کی فوج کے ساتھ بات ٹھیک ہے تو خدارا ان کی عزت کریں کیونکہ جو ان کو چلا رہے ہیں انہوں نے پیغام دے دیا ہے کہ وہ چڑیا سے باز مروانا جانتے ہیں باقی اللہ خیر کرے۔۔۔!

khurramiqbalawan@gmail.com, https://twitter.com/khurramiawan

Saturday, August 23, 2014

Hazrat Ali Karam Allah Wajho (R.A)



حضرت علی المرتضٰی ؓ
آج عالم اسلام کی جس شخصیت کے بارے میں لکھنے بیٹھا ہوں اُس کے بارے میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اس کا آغاز کہاں سے کروں اور انتہا کیسے کروں اور کہاں کروں۔ اور وہ شخصیت ہیں حضرت علی المرتضیٰؓ ۔ آپ کا نام نامی ”علی بن ابی طالب ،بن عبد المطلب، بن ہاشم بن عبد مناف ہےاور کنیت ”ابوالحسنین و ابو تراب ہے،جنابِ ابوطالب کے صاحبزادے ہیں یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی ہیں،آپ کی والدہ محترمہ کا اسم گرامی فاطمہ بنت اسد ہاشمی ہے اور وہ پہلی ہاشمی خاتون ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا اور ہجرت فرمائی۔
سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مناقب وفضائل بے شمار ہیں جتنی زیادہ حدیثیں آپ کی تعریف وتوصیف اور فضیلت میں منقول ہیں اتنی صحابہ میں سے کسی کے حق میں منقول نہیں ہیں ،حضرت علی کی مناقب میں سے جو صحیح احادیث منقول ہیں اُن کے بارے میں امام احمد اور امام نسائی نے کہا ہے کہ ان کی تعداد ان احادیث سے کہیں زیادہ ہے جودوسرے صحابہ کے حق میں منقول ہیں ،علامہ جلال الدین سیوطی نے اس کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ متاخر ہیں اور ان کے زمانہ میں نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف ونزاع کی خراب صورت حال پیدا ہوگئی تھی بلکہ خود سیدنا علی کی مخالفت کرنے والوں کا ایک بہت بڑا طبقہ پیدا ہوگیا تھا جنہوں نے ان کے خلاف جنگیں بھی لڑیں اور ان کی خلافت سے انحراف بھی کیا ،لہٰذا علما ءاور محدیثین نے مقام علی کی حفاظتی اور مخالفین علی کی تردیدوتغلیط کی خاطر منقبت علی سے متعلق احادیث کو چن چن کر جمع بھی کیا ،اور ان احادیث کو پھیلانے میں بہت سرگرم جدوجہد بھی کی۔
 اپنے زمانہ طالب علمی  میں اپنی کتب سے پڑھ کر اور اپنے اساتذہ سے سن کر میرے ذہن میں حضرت علی المرتضیٰؓ کی جو تصویر اُبھرتی تھی اور جو بہت سالوں تک بنی رہی کہ حضرت علیؓ  ایک غصے والی شخصیت ہیں ہاتھ میں تلوار ہر وقت لڑنے (جہاد) کو تیار۔ ایک نہیں سب ہی کے بارے میں ہمارا تخیل عجیب سا ہو گیاہے۔ اگر بچپن کے علیؓ کو دیکھا جائے اور اسلام قبول کرنے کے واقعہ پر نظر ڈالی جائے تو بھی علیؓ ایک جذباتی بچہ معلوم ہوتا ہے۔ جو جتنی بار بھی نبی نے اپنی نصرت کے لئے پکارا وہ لبیک کہتا ہوا کھڑا ہوتا ہے پھر اسے بٹھا دیا جاتا ہے۔ کسی شخصیت کیساتھ ایک اچھا ایڈمنسٹریٹرہونا جوڑ دیا جاتا ہے کسی کے ساتھ سخاوت کا وصف جوڑ دیا ہم نے کبھی ان شخصیات کو ان کے ان واحد وصف سے باہر نکلنے ہی نہیں دیا جبکہ حضرت علیؓ کے بارے میں آُپ کا اپنا فرمان ہے کہ میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ ہیں۔ جن کی پیدائش کعبہ میں ہوئی جو دنیا میں تشریف لائے بھی تو اللہ کے گھر میںشکمِ مادر میں ہونے کے باوجود کعبہ کی دیوار شک ہوئی اور آپ کی والدہ گرامی اندر تشریف لائیں اور آپ کی ولادت ہوئی ۔ جو کہ حضرت علیؓکی کرامت تصور کی جاسکتی ہے۔ پھر آپؓ نے اس وقت تک آنکھ نہ کھولی جب تک گودِ رسالت میں تشریف نہ لے گئے۔ اور آپؓ کو گھٹی کے طور پر حضرت محمد نے اپنی زبان چسوائی اور پھر ہم یہ بات زور دے کر کہیں کہ بچوں میں سب سے پہلے حضرت علیؓ نے اسلام قبول کیا،جوکہ شاید ہم اپنے اسلاف کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں۔
حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی ذات وہ ذات گرامی ہے جو بہت سے کمال و خوبیوںکی جامع ہے کہ آپ شیر خدا بھی ہیں اور داماد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ،حیدر کرار بھی ہیں اور صاحب ذوالفقار بھی ،حضرت فاطمہ زاہرہ کے شوہر نامدار بھی اور حسنین کریمین کے والد بزرگو ار بھی ،صاحب سخاوت بھی اور صاحب شجاعت بھی ،عبادت و ریاضت والے بھی اور فصاحت و بلاغت والے بھی ،علم والے بھی اور حلم والے بھی ،فاتح خیبر بھی اور میدان خطابت کے شہسوار بھی،غرضیکہ آپ بہت سے کمال و خوبیوں کے جامع ہیں اور ہر ایک میں ممتاز ویگانہ  ہیں اسی لئے دنیا آپ کو مظہر العجائب والغرائب سے یاد کرتی ہے اور قیامت تک اسطرح یاد کرتی رہے گی۔     
چلئے دیکھتے ہین علی کا مطلب کیا ہے تو علی کا مطلب لغت کے مطابق بلند ترین اعلی ترین ہیں اور حضرت علیؓ وہ ہستی ہیں جنہوں نے حسب نصب بھی اعلی پایا اسلام کی تاریخ میں کردار بھی جن کا لازوال رہا اور جنہوں نے اپنے ہر عمل سے اس ذات حق کو بلند کیا جنگ خیبر میں جب خیبر کا قلعہ فتح ہونے میں نہیں آرہا تھا تو آخر کارآپ نے حضرت علیؓ  کو یاد کیا آپؓ آشوب چشم میں مبتلا تھے حضور نے اپنا لعاب دہن ان پر لگایا اور آپؓ کی آنکھیں مکمل طور پر تندرست ہو گئیں اور آپؓ نے خیبر کا دروازہ اکھاڑ دے مارا اور مرحب جو اپنی طاقت و غرور کے نشے میں جھوم رہا تھا اسے واصلِ جہنم کیا۔ اس واقعے کو دیکھتے ہوئے بہت سے مسلمانوں کے دل میں حضرت علیؓ کی دھاک بیٹھ گئی اور وہ لوگ آپ کے پاس آپ کے خیمے میں آئے اور آپ کو خود دادِ شجاعت دی اور قریب تھا کہ وہ شرک میں مبتلا ہو جاتے کہ آپ نے اپنے سامنے رکھی جو کی روکھی سوکھی روٹی کو توڑنا شروع کیا مگر نہ روٹی نے ٹوٹنا تھا نہ ٹوٹی وہ لوگ جو آپ کے پاس تشریف لائے تھے آپس میں کھسر پھسر کرتے ہوئے حضرت علیؓ کے خیمے سے باہر چلے گئے کہ اس سے تو روٹی نہیں ٹوٹتی اس نے نہ جانے خیبر کا دروازہ کیسے اکھاڑ ڈالا۔ حضرت علیؓ مسکرائے اور پانی میں روٹی بھگو بھگو کر کھانے لگے میں ایسی ہستیوں کی شان کے بارے میں صرف اتنا کہوں گا کہ یا اللہ ان لوگوں نے اپنی ہستیوں کو مٹا مٹا کر تیری ذات کو قائم کیا ہے تیری ذات کو بلند کیا ہے اس لئے ان کا ذکر ہمیشہ قائم ہے اور قائم رہے گا بلکہ وہ بلندی اور مقام حاصل کرے گا کہ جس کو کبھی ذوال نہیں ہو گا۔  اس طرح جنگ خندق میں عمرو بن عبد اود جب خندق عبور کر کے آگیا تھا اور للکار رہا تھا تا آپ نے تین مرتبہ فرمایا ہے کوئی جو اس کی زبان قطع کرے کوئی سامنے نہیں آیا تیسری مرتبہ حضرت علیؓ سامنے آئے اور مقابلے کی خواہش کا اظہار کیا ۔ تو جب وہ میدان کی جانب جانے لگے تو آپ نے فرمایا کہ آج کُلِ کفر کے مقبلے میں کُلِ ایمان جا رہا ہے ۔ آپؓ کو حضور سے محبت وعشق کا یہ عالم تھا کہ آپ نے فرمایا کہ میں حضور کے پیچھے ایسے چلتا ہوں جیسے اونٹنی کے پیچھے اس کا بچہ چلتا ہے آپ کے ساتھ حضرت علیؓ کی محبت کی ایک اور مثال سورج کا پلٹنے والا واقعہ ہے ۔ غزوہ خیبر کے دوران ایک مقام پر حضرت محمد حضرت علی کی گود میں سر رکھ کر سو رہے تھے۔ عصر کا وقت ختم ہو رہا تھا نماز قضا ہو رہی تھی اگر حضرت علیؓ چاہتے تو آپ کو جگا کر آپ سے درخواست کرتے کہ نماز ادا کر لیتے ہیں پھر سو جائیں مگر عشق نبی تو مانتا ہی نہیں کچھ بھی وہ تو کہتا ہے
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
کیونکہ عقل کا شیوہ تو سوچنا پرکھنا تنقید کرنا ہے دلائل لانا ہے جبکہ عشق آنکھیں بند کر کے سر تسلیم خم کر دیتا ہے اس لئے حضرت ابراہیم کو جب نمرود نے آگ میں کودنے کو کہا تو عقل بھی تو کہتی ہے کہ یہ خلاف شریعت ہے نہ خلاف عقل ہے کہ آگ میں کود جایا جائے مگر ابراہیمؑ کہ سامنے معشوق کی عزت کا سوال تھا اسی لئے۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
  عقل ہے محو تماشا لب بام ابھی
اسی طرح حضرت علیؓ نے بھی عشق نبی کو مقدم کر کے اپنی نماز کو اس پر قربان کردیا۔
نمازیں گر قضا ہوں پھر ادا ہوں
نگاہوں کی قضائیں کب ادا ہوں
حضرت علیؓ آفتاب نبوت کو دیکھنے میں مگن تھے اور دوسری جانب آفتاب غروب ہونے کو جا رہا تھا ۔ جب حضرت علی کی نظر سورج پر پڑی اور آپ کو نماز قضا ہوتی ہوئی محسوس ہوئی تو آپ کی طبیعت متغیر ہوئی اور جب کوئی صورت نہ بن پڑی تو آپ کے آنسو رواں ہو گئے جب آنحضرت بیدار ہوئے تو انہوں نے حضرت علیؓ کا چہرہ آنسوؤں سے تر دیکھا تو تو پوچھا کیا ہوا ہے؟ علیؓ نے فرمایا نماز چھوٹ گئی تو حضرت محمد نے فرمایا تو قضا پڑھ لینا اب کی بار حضرت علیؓ نے حضرت محمد کے چہرہ مبارک کی جانب دیکھا اور سوالیہ انداز میں دیکھا میرا خیال یہ کہتا ہے کہ ایک عاشق نے اپنے معشوق سے یہ سوال کیا ہو گا کہ آپ جیسے معشوق کی غلامی میں نماز جائے اور قضا پڑھوں ؟ آپ نے دیکھا کہ حضرت علیؓ قضا نہیں نماز ادا کرنا چاہتے ہیں تو والی دو جہاں محمد مصطفی نے یہ دعا فرمائی ہو گی اے اللہ  علیؓ تیری اور تیرے رسولکی اطاعت میں مصروف تھے اس وجہ سے ان کی نماز قضا ہو گئی پس سورج کو پلٹا دے تاکہ عاشق کی نماز ادا ہو سکے اور پھر چشم فلک نے وہ منظر دیکھا کہ اللہ نے دعا قبول فرمائی اور اجازت اپنے محبوب کو دی کہ آپ اشارہ فرمائے اور سورج پلٹ آئے آپ نے ایسا ہی کیا اور سورج ایک تابعدار غلام کی طرح سے پلٹ آیا اور حضرت علیؓ نے نماز ادا کی ایسی نماز کسی کو نہ نصیب ہوئی تھی نہ ہوئی ہے اور نہ ہو گی یہ ہیں علیؓ۔ اور یہ میرا ماننا ہے کہ نبی کا سونا جاگنا اُٹھنا بیٹھنا بولنا چالنا غرض سب کچھ حکمِ ربی ہوتا ہے نبی اپنی مرضی سے کچھ نہیں کرتا۔
اسی طرح مواخات کا موقع جب آیا تو آپ نے مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کا بھائی بنایا مگر حضرت علیؓ کو کسی کے ساتھ بھائی چارہ کے رشتہ سے منسلک نہ کیا حضرت علیؓ کچھ رنجیدہ ہوئے تو آپ نے فرمایا اے علی آپ دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہیں (جامع الترمزی) حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم نے حضرت علیؓ کو فرمایا اے علی تم مجھ سے وہ نسبت رکھتے ہو جو حضرت ہارون علیہ اسلام کو حضرت موسی علیہ اسلام سے تھی مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں(جامع الترمزی)۔ اگر ہم علم و فضل میں بھی مشاہدہ کریں تو تمام خلفائے راشدین جو آپؓ سے پہلے آچکے تھے اپنے فیصلوں میں آپ کی رائے کو فوقیت دیتے تھے حضرت عمرؓ نے تو یہاں تک کہ دیا کہ اگر علیؓ نہ ہوتے تو عمرہلاک ہو جاتا۔
ہم نے اس طرح کی شخصیت کو صرف بچوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والا اور صرف ایک شجاع کے طور پر تاریخ کے اوراق پر لکھ ڈالا۔ جب کہ آپؓ فنون لطیفہ اور حسِ مزاح سے عاری نہیں تھے بلکہ ایک اچھی حسِ مزاح رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت ابو بکرؓ ، حضرت علیؓ اور حضرت عمرؓ راستے میں جا رہے تھے اور اس ترتیب سے کہ حضرت علیؓ درمیان میں تھے اور حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ دائیں اور بائیں تھے۔ کسی نے راستے میں کہا کہ دیکھو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ "لنا" لکھا ہوا ہے کیونکہ حضرت علیؓ کا قد حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ کے مقابلے میں تھوڑا چھوٹا تھا حضرت علیؓ نے جب یہ الفاظ سنے تو مسکرا کے رک گئے اور جملہ کسنے والے کو کہا کہ اب دیکھو کہ یہ کیا لکھا ہوا ہے تو یوں معلوم ہورہا تھا کہ"لا" لکھا ہو اہے جس کا مطلب ہے کچھ نہیں ۔
اور آیت مباحلہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تمام تفصیل سے گریز کرتے ہوئے اس آیت میں مباحلہ کے لئے جو شخصیات سامنے آئیں تھیں عیسائی پادریوں کے ان میں حضرت محمد اپنے نفس کی جگہ جس شخصیت کو لائے تھے وہ تھے حضرت علیؓ اس لئے خیبر میں حضرت محمد نے فرمایا تھا کہ کل میں جھنڈا ایک ایسے شخص کو دونگا  جس کے ہاتھ پر اللہ فتح عطا فرمائیگا وہ شخص اللہ و رسول کو دوست رکھتا ہے اور اللہ و رسول اس کو دوست رکھتے ہیں۔
میرے مسلمان بھائیو یہ ہیں پرورہ رسول،اقلیم ولایت کے شہنشاہ،عبادت و ریاضت میں مسلمانوں کے پیشوا،میدان کارزار کے تاجدار،معرکہ خیبر کے شہسوار،رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غم خوار،خلفاءثلاثہ کے خیر خواہ،تمام صحابہ کے محبوب،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محب صادق جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کا مژدہ سنایا،جن سے بغض رکھنا کفر،جن سے محبت رکھنا ایمان،خاتون جنت کے شوہر،جنت کے جوانوں کے سردار ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ عم زاد،جن کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نازبرادری کریں،جن کوتہجد پڑھوانے کیلئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم راتوں کو جگانے آئیں،جو اگر روٹھ جائیں تو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم منانے آئیں،اور اسی عالم میں بوتراب کا لقب پائیں،جس سے وہ ناراض ہوجائیں ،وہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کا معتوب،اور جس سے وہ راضی ہوجائیں وہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب ہو،یہ وہ ہیں جن کی محبت میں جیناعبادت اور مرنا شہادت ہے یہ ہیں خاتم الانبیاءحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم الخلفاءسیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ۔
میرے ہاتھ یہ جملہ لکھتے ہوئے شدتِ جذبات سے کانپ رہے ہیں کہ اس طرح کی شخصیت کو 19رمضان کو نمازِ پر خوارج میں سے ایک ابن ملجم نے اچانک آپ پر تلوار کا بھرپوروار کیا وار اتنا سخت تھا کہ آپ کی پیشانی کنپٹی تک کٹ گئی اور تلوار دماغ پر جا کر ٹھہری، اور 21رمضان المبارک شب اتوار 40 ہجری میں آپ کی شہادت ہوئی،انا للّٰہ وانا الیہ راجعون، یہ شہادت صرف حضرت علیؓ کی نہیں تھی بلکہ اُمت کے شیرازے کی شہادت تھی، خلافت سے ملوکیت کا سفر تھا جو آج بھی ہم بھگت رہے ہیں۔
اپنی بات اُس واقع پر ختم کروں گا کہ حضرت علیؓ سے کسی نے پوحھا اے علیؓ کیا ہوا کہ آپ کے دور میں شورش جنگیں اعر بےآرامی زیادہ ہے آپ سے پہلے ادوار میں ایسا نہ تھا تو آپ نے فرمایا۔
پہلے والوں کے مشیر ہم تھے، ہمارے مشیر تُم ہو۔
khurramiqbalawan@gmail.com, https://twitter.com/khurramiawan

this article (edited version) is already published in Daily Pakistan.