Saturday, April 2, 2016

فرق تو پڑتا ہے



از:۔ خرم اقبال اعوان
 اے حقیقتِ منتظر

 آخر کار مصطفی کمال نے اپنے گروپ کو ایک نام دے کر پارٹی میں تبدیل کر لیا ، مبارک ہو۔ ان کی پارٹی کا نام ہے پاک سرزمین پارٹی یعنی جو ان کے ساتھ ملے گا وہ پاک ہو جائے گا اور وہی پاک سرزمین پر ہو گا باقی سب نہ تو اپنے آپ کو پاک خیال کریں اور نہ ہی وہ پاک سرزمین پر ہیں نہ عوام کا فیصلہ درست ہے اور نہ عوام کے ووٹ سے آئے ہوئے لوگ درست ہیں ۔ مگر ایک بات ہے کہ اس پارٹی میں بھائی بھائی کی رٹ لگی ہوئے ہے اور میرا کوئی قاری مجھے بتائے کہ مصطفی کمال رضا ہارون کو بہت گرمجوشی سے نہ صرف گلے لگاتے ہیں بلکہ کافی دیر تک ان سے چمٹے رہتے ہیں اتنا پیار ان کو کسی اور پر کیوں نہیں آتا آخر کیوں؟ پھر بھلا ہو ہمارے میڈیا کا کہ مصطفی کمال کو اتنا دکھا دیا اور اتنی باتیں کر لیں ان سے کہ ان کے پاس کہنے کو کچھ باقی ہی نہیں بچا کیونکہ جو تقریر انہوں نے دبئی سے آکر کی تھی وہی پارٹی کا نام رکھتے ہوئے کی مگر بہت کم لوگوں کو یہ باتیں معلوم ہونگی کہ 23 مارچ کو کمال ہاوس پر قومی پرچم لہرانے کا وقت آیا تو ان کا پرچم جسے انہوں نے پہلے دن کہا تھا کہ یہ ہماراپارٹی کا نشان ہے خار دار تاروں میں پھنس گیا شاید کوئی ناپاک آگیا ہو ئا مصطفی کمال ابھی تک پاک نہیں ہوئے ۔ پھر کلفٹن مارکی کے باہر ایک نوجوان بہت پھرتیاں دکھا رہا تھا اس نے ٹی شرٹ پہن رکھی تھی سفید رنگ کی جس کے سینے والے حصہ پر پاکستان کا جھنڈا بنا ہوا تھا اور جب وہ نوجوان پلٹا تو اس کی کمر پر سبز رنگ سے ہماری پاک آرمی کا نشان بنا ہوا تھا اور لکھا تھا Support the Pakistan Army میں حیران رہ گیا اور سوچا کہ بھائی جس آرمی کو کیانی صاحب سیاست سے دور کرتے رہ گئے جس کے لئے راحیل شریف ابھی تک کوشاں ہیں جو ضرب عضب میں مصروف ہیں جو سیاست سے میلوں دور ہو چکی ہے بھائی تو اسے کیوں پاک سرزمین پارٹی کے جنم استھان پر لے آیا بھائی ، جہاں کسی کی پیدائش ہوتی ہے وہ جگہ پاک نہیں ہوتی مگر کیا کریں جوش میں ہوش نہیں رہتا اور محبت اندھی ہوتی ہے ۔ چاہوں گا لوگ اس بیچارے کو معاف کر دیں گے کیونکہ غلطی ہوگئی بھول جائیں ۔
میں نے 31 اگست2014 کو لکھا تھا کہ نقصان سب اٹھائیں گے اس کا آغاز 2013 کے نیشنل الیکشن میں ہو اتھا مگر کام ابھی مکمل نہیں ہوا اب جو پارٹیاں سمندر بن چکی ہیں ان کی حالت وہی ہے ۔ کسی کے آنے جانے سے فرق نہیں پڑ رہا تھا ووٹ بینک متنفر ضرور ہوا تھا منکر نہیں یہی تو ڈاکٹر فاروق ستار نے چند دن پہلے صفائی مہم کے دوران فرمایا کہ سمندر میں سے چند بالٹی پانی نکل جائے تو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ پہلی بات اگر فرق نہیں پڑتا تو یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس کا مطلب ہے فرق تو پڑا ہے۔ چاہے کم یا زیادہ فکر تو ہے چاہے ظاہر کی جائے یا نہ کی جائے۔ اب فرق کیسے پڑتا ہے اِس کے لیے آپ کو کچھ لمحات کے لیے تاریخ کے جھروکوں میں لے کر چلتے ہیں۔
ایک فرق کراچی کو ڈالنے کا آغاز 1979 سے شروع کیا گیا تھا۔ اس فرق کی باقاعدہ داغ بیل 1982 میں ایک پارٹی بنا کر ڈالی گئی جس کو بنانے والوں میں عظیم طارق، عشرت العباد، اشتیاق احمد، عامر خان تھے۔ مگر کراچی میں یہ فرق ڈالنے والوں کو ان چاروں پر اعتماد نہ رہا پھر 1984 میں شکاگو امریکہ سے ایک شخص کو درآمد کیا گیا جو وہاں ٹیکسی چلاتا تھا۔ جسے آج تمام ملک قائد تحریک کے نام سے جانتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اسے ہی کیوں؟ تو اس کے جواب کے لیے مزید کچھ تاریخ کے اوراق پلٹنے پڑیں گے۔ جب ایک لڑکا الطاف حسین کے نام سے جامعہ کراچی میں داخلہ لیتا ہے  جمیعت کے ساتھ اپنے آپ کو منسلک کرتاہ ے اور  جمیعت کے ساتھ رفیق کے طور پر جڑ جاتا ہے۔ اور اس حد تک وابستہ ہوتا ہے کہ سائیکل پر کھالیں تک جمع کرتا ہے۔ یاد رہے اس وقت جامعہ کراچی میں صرف جماعت ِ اسلامی اور پاکستان پیپلز پارٹی کا راج تھا۔
جب وقت جامعہ کراچی میں اسٹوڈنٹ یونین کے الیکشن کا آیا تو اس طالب علم (الطاف حسین) نے اپنے کاغذات  جمیعت کی جانب سے جمع کروانے کی کوشش کی، جبکہ  جمیعت کا اپنا ایک طریقہ کار ہے کسی بھی طالب علم کو نامزد کرنے کا جس پر الطاف حسین صاحب نے مزاحمت کی تو  جمیعت نے ان کو بالکل ہی خارج کر دیا۔ تو الطاف حسین نے آزاد حیثیت سے جامعہ کراچی میں انتخاب لڑا اور نتیجہ وہی ہوا جس کی توقع تھی کہ آج کے قائد تحریک اور اس وقت کے الطاف حسین  جمیعت کے مقابلے میں ہار گئے۔ مگر انھوں نے واپس  جمیعت کی جانب جانے کے بجائے اپنا ایک الگ چھوٹا گروپ بنا لیا اور مختلف اوقات میں  جمیعت کے ساتھ اپنے سینگ پھنسائے رکھے۔ اسی وقت سے الطاف حسین کو اپنی نظر میں رکھا نظر میں رکھنے والوں نے اور جب سب کچھ تیار ہو گیا تو 1984 میں شکاگو سے بلا کر پارٹی کا ہیڈ بنا کر بٹھا دیا گیا۔
یہی سب تو رضا ہارون نے کہا تھا کہ آپ کو دو مرتبہ باہر سے بلا کر بنی بنائی پارٹی پر بٹھا دیا گیا۔ آپ نے کون سا کمال کیا؟ مگر رضا ہارون ایک بات بھول گئے کہ کسی بندے کو بلاشرکت غیرے 1984 سے اب تک اگر قائد تحریک بنا کر بٹھائے رکھا جائے ایک چھوٹے سے فیصلے کے لیے بھی ان کی اجازت درکار ہو تو پھر اس طرح کے شخص کا مطلق العنان بن جانا فطری عمل ہے۔ اس پر رضا ہارون اور مصطفی کمال کا آج کُڑنا درست نہیں کیونکہ اس میں ان کا بھی حصہ ہے۔
یہ سب اُس وقت بھی اسی طرح ہوا جیسے آج مصطفی کمال کو لا کر بٹھا دیا گیا ہے۔ اور ان کے ساتھ لوگ جوڑے جا رہے ہیں۔ اب لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ اور کون کون ہے یہ بات تو وقت ہی بتائے گا اور ثابت بھی کرے گا مگر کچھ احباب یہ بتاتے ہیں کہ ان میں حیدر عباس رضوی، رشید گوڈیل، فیصل سبزواری، روف صدیقی، اظہار الحق، خوش بخت شجاعت وغیرہ ہیں۔ اس میں وقت تو لگے گا اور وقت ہی شاید کچھ نام بدل بھی دے اور نئے نام ڈال بھی دے۔ مگر کام لمبا ہے۔ کیونکہ ساتھیوں کو ساتھ جوڑنا اتنا آسان کام بھی نہیں۔ اب رضا ہارون صاحب کے ساتھ شامل ہونے کے بعد ہونے والی پریس کانفرنس کہنے کو مشرف صاحب کے ملک سے باہر جانے کی نظر ہو گئی۔ مگر مقتدر حلقوں سے معلوم ہوا کہ مصطفی کمال کی اور انیس ایڈووکیٹ جنھوں نے اُس دن دبئی سے آنا تھا کے درمیان وسیم آفتاب کو لے کر کافی تلخ کلامی ہوئی جس کی وجہ سے انیس ایڈووکیٹ دبئی سے پاکستان ہی نہ آئے، جو کہ بعد میں تقریباً سات دن بعد تشریف لائے۔ پھر لوگ یہ بھی جاننا چاہیں گے کہ حیدر عباس رضوی صاحب کس طرح اس نئے گروپ میں شامل ہوں گے۔ اب اس کا جواب یہ ہے کہ 2009 میں ایک عالم دین مولانا عبد المجید صاحب کو قتل کیا گیا۔ آپ یہ کہیں گے کہ یہ کیا بات ہوئی۔ ان سے حیدر عباس ر ضوی کا کیا تعلق ؟ تو جناب گزارش یہ ہے کہ مصطفی کمال صاحب کے اس گروپ اور ایم کیو ایم وغیرہ کے بارے میں باتوں کا سراغ لگاتے ہوئے کچھ ذرائع سے یہ معلوم ہوا کہ جس دن مولانا عبد المجید صاحب کا قتل ہوا اُس دن 3 مزید عالم دین کو قتل کرنے کا پلان تھا مگر وہ کہتے ہیں کہ مارنے والے سے بچانے والا طاقت ور ہے۔یہ تو ان کی زندگی تھی جن لوگوں کے ذمہ ان کو مارنا تھا اُنھی میں سے کچھ لوگوں نے باقی 3 احباب کو مطلع کر دیا۔ اور اب سب سے خاص بات کہ اس سب پلان کے ماسٹر مائنڈ حیدر عباس رضوی صاحب تھے اور یہ سب باتیں اور ثبوت جس کے پاس ہونی چاہیں اس کے پاس ہیں۔
اسی طرح رشید گوڈیل صاحب ہیں جو کہ اپنے اوپر ہونے والے حملے کے بعد سے منظر عام سے غائب ہیں ان کے بارے میں بھی قوی امکان ہے کہ وہ بھی اسی گروپ میں شامل ہوں گے اور اپنا کردار ادا کریں گے۔ فیصل سبزواری قیادت سے لمبی چھٹی لے کر امریکہ جا چکے ہیں واپسی پر متحد رہتے ہیں یا پاک سر زمین پر اُترتے ہیں یہ فیصلہ وقت کرے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ گروپ کیوں بنا اور یہ کرے گا کیا؟ تو جناب سیدھی سی بات ہے اتنے سالوں تک MQM اور الطاف حسین صاحب بلا شرکتِ غیرے کراچی اور حیدر آباد پر حکومت کر رہے تھے۔ اسی لیے شاید اب وہ دسترس سے باہر ہو گئے تھے یا ہو رہے تھے کیونکہ تمام کراچی کی نیشنل اسمبلی کی ٹوٹل 21 نشستیں ہیں جن میں اکثریت ایم کیو ایم کے پاس ہوتی ہیں۔ تمام کراچی میں ایم کیو ایم کے 32 سیکٹرز ہیں ان میں جہاں بہاریوں کی اکثریت ہے یعنی اورنگی ٹاون وغیرہ وہاں مصطفی کمال بہاریوں کے ناراض ہونے کی وجہ سے مضبوط پوزیشن میںنظر آتے ہیں۔ اسی طرح PID کالونی اور عزیز آباد جہاں سے ایک محطاط انداذے کے مطابق متحدہ کو فائٹر اسکواڈ ملتا ہے یعنی جوشیلے نوجوان جو متحدہ کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ یہاں مصطفی کمال کا اثر و رسوخ اچھا ہے۔ اسی طرح لانڈی شاہ فیصل وغیرہ میں بھی مصطفی کمال گروپ متحدہ کو کڑا مقابلہ دے سکتا ہے۔ اسی طرح انیس قائم خانی اور انیس ایڈوکیٹ دونوں افراد کا تنظیم سازی میں وسیع تجربہ ہے اور انیس ایڈووکیٹ تو حیدر آبادسے ممبر نیشنل اسمبلی منتخب ہو چکے ہوے ہیں ، تو یہ دونوں افراد حیدر آباد ، سکھر میں زمین کو پاک کر سکتے ہیں۔ اسی طرح کچھ (2)کے قریب سیٹیں”پیپلز پارٹی“ کی اور کچھ سیٹیں ”پی ٹی آئی“ اور باقی مصطفی کمال گروپ اگر اوپر بتائے گئے لوگ ان کے ساتھ شامل ہوں تو امید کی جا سکتی ہے کہ یہ گروپ 6سے 8 نیشنل اسمبلی کی سیٹیں جیت لے گا جو کہ متحدہ کے لیے بہت بڑا دھچکا ہو گا یعنی 21 میں سے 10 یا 11 نیشنل اسمبلی کی نشستیں متحدہ کے علاوہ کچھ اور لوگوں میں بٹ جائیں۔ کیونکہ ایم کیو ایم اور الطاف حسین کا چولی دامن کا ساتھ بن چکا ہے۔ الطاف حسین پر ہر طرح کے الزام لگے ،ڈاکٹر عمران کے قتل کے ، منی لانڈرنگ کے الزامات ، ابھی تک کچھ بھی نہیں بن پڑا۔ لندن میں اگر کچھ ہو گا تو منی لانڈرنگ میں ہو گا جب کورٹ میں کیس جائے گا۔ مطلب یہ کہ ابھی کام دور ہے۔ بات چلی ہے تو یہ بھی گزارش کرتا چلوں کہ سرفراز مرچنٹ جن کے حوالے سے آج کل کافی شور شرابہ ہے جو وعدہ معاف گواہ کے طور پر سامنے آ رہے ہیں اور آج بہت بے قصور بن کر معصوم بن کر بیان اور ویڈیو بیپر دیتے ہیں یہ صاحب خود چائنہ کٹنگ میں ملوث رہے ہیںاور مصطفی کمال اور حماد صدیقی یہ  لوگ بھی چائنہ کٹنگ میں ملوث ہیں۔ نہ جانے ان کے خلاف کوئی فائل کسی ادارے کو کیوں نہیں ملتی۔ نہ جانے ان کا کوئی دست راست کیوں 90 روز کے لیے ریمانڈ پر نہیں جاتا۔ خیر یہ توویسے ہی تذکرہ ہو گیا اس بارے میں پھر کبھی۔ ابھی واپس اپنے موضوع پر آتے ہیں کہ الطاف حسین صاحب پر مقدمات پر سنوائی اور ان پر سزا یا انھیں بری کرنے کے کام میں ابھی وقت درکا ہے۔ اور پھر الطاف حسین صاحب کی صحت بھی کبھی ٹھیک کبھی خراب۔ ان سب باتوں کونظر میں رکھتے ہوئے ایم کیو ایم کے ووٹ بینک کے حوالے سے کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ وہ بے یار و مددگار ہو جائے گا اور آخر کار یا تو پیپلز پارٹی کے پاس جائے گا یا پھر مسلم لیگ (ن) کے پاس کیونکہ پی ٹی آئی تو اپنی عوامی مقبولیت جو کہ جلسوں میں ہو یا کچھ حد تک ریلیوں میں ہو کو بیلٹ میں منتقل کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ اور وہ حلقے یہ دیکھ کر کافی پریشان تھے کہ پی ٹی آئی اپنا رنگ جمانے میں ناکام ہو چکی ہے تو پھر اگر ووٹ پی پی پی میں یا مسلم لیگ (ن) میں بٹنا ہے تو کیا فائدہ۔ اس لیے یک دم پلک جھپکتے سب کچھ ہوجاتا ہے۔ اور وہ لوگ جن کے نام کے وارنٹ ہیں جن کے حوالے سے خطوط ائیر پورٹ حکام کو دیے جا چکے ہیں کہ اگر یہ لوگ بیرون ملک آئیں تو انھیں روک کر پولیس کو مطلع کر دیاجائے مگر کیا کیا جائے کہ اگر میں مصطفی کمال کی بات مان لوں جو کہ ماننے میں نہیں آتی کہ انھیں کسی نے پہنچانا نہیں وہ اتنی آسانی سے کیسے آتے ہیں اور بہت اطمینان سے ایئر پورٹ سے باہر آتے ہیں۔ بلکہ ابھی تک بے خوف گھوم رہے ہیں اور مزید یہ کہتے ہیں کہ کراچی کے نوجوانوں کو عام معافی دی جائے جیسے بلوچوں کو دی گئی۔ کوئی بلوچ، کوئی لنگڑا کوئی اور کسی بھی حلیے میں ہو وہ پہچانا بھی جاتا ہے پکڑا بھی جاتا ہے۔ آخر قانون کو اتنا مذاق کیوں بنا دیا گیا ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ قانون سے کھیلا جا رہا ہے۔اِس کا مطلب ہے کہ کوئی اور ہے جس کی وجہ سے مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کے تمام گناہ معاف ہو گئے۔ کیا معاف کرنے والی خدائی طاقتیں ہیں یا غیبی؟ خیر پھر بات کہیں سے کہیں نکل گئی۔ دکھ اتنے ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں ۔ تو جناب ایم کیو ایم کا ووٹ بینک توہے جس کی وجہ سے اِن حضرات کو دبئی سے پاکستان اتاراگیا ہے۔
تو جیسا میں نے 31 اگست 2014 کو لکھا تھا کہ نقصان سب اٹھائیں گے تو جناب متحدہ کے حصے کیے جانے ہیں مطلب اِن کے ووٹ بینک کے۔ پھر آگے بات چلے گی مگر یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ جتنا طاقتور اثر مصطفی کمال کا سمجھا جا رہا تھا وہ ہوا نہیں اور ان کے ساتھ ویسے لوگ آ کر جڑے نہیں جو کہ متحدہ کو کچھ خاص فرق ڈال سکیں۔ بس اگر یہی حال رہا تو صرف ووٹ ٹوٹے گا نتیجہ تقریباً وہی رہے گا جو ہوتا ہے، کچھ رد و بدل کے ساتھ۔ مگر بلا شرکت غیرے میں اتنا فرق بھی بہت ہوتا ہے فاروق ستار بھائی۔ اللہ آپ کو امان میں رکھے اور استقامت دے۔ ویسے متحدہ کی خاموشی مصطفی کمال صاحب کے لئے نشتر بنتی جارہی ہے جو کہ ان کے چہرے پر عیاں ہے۔ کیونکہ اگر متحدہ بولے تو ان کے جواب میں پریس کانفرنس ہو جائے گی کیونکہ بولنے کا میٹیرئیل مل جائے گا نیا آجائے گا مگر خاموشی کا کوئی کتنا جواب دے سکتا ہے۔ آخر کار لوگ خاموشی کے مقابلے میں مسلسل ایک ہی بات بولنے والے کو پاگل کہہ کر اس پر توجہ دینا بند کر دیتے ہیں ۔ میری درخواست ہے کہ متحدہ اسی طرح چپ رہے اور اپنے مخالفین کو پریشان رکھے ۔ مگر قائدِ تحریک لے لیئے میر تقی میر نے کیا خوب کہا ہے۔۔۔
جی کا جانا ٹھر رہا ہے صبح گیا یا شام گیا
Shehzada Khurram Iqbal Awan
E-mail:   khurramiqbalawan@gmail.com,